سابق ٹیسٹ پیسر عاقب جاوید نے کہا کہ رمیز راجہ میرے ساتھی کرکٹر رہے ہیں،انھوں نے جب چیئرمین پی سی بی کا چارج سنبھالا تو مجھے بھی بلایا تھا، بورڈ کا کوئی بھی سربراہ آیا میں بہتری کی امید پر حوصلہ افزائی کرتا رہا ، جہاں ضروری ہو مشورہ بھی دیتا ہوں تاکہ کرکٹ میں بہتری آسکے۔
انہوں نے کہا کہ میری شکایت یہ ہے کہ 3سالہ دور میں سابق چیئرمین احسان مانی اور چیف ایگزیکٹیو وسیم خان کی پالیسیز سے کرکٹ کا بیڑہ غرق ہوا،اسی لیے سرپرست اعلیٰ عمران خان کو بورڈ کا سربراہ تبدیل کرنا پڑا، رمیز راجہ سے امید تھی کہ سابقہ دور کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے،معاملات میں بہتری لانے میں کامیاب ہوں گے، ڈومیسٹک کرکٹ، ہائی پرفارمنس پر توجہ ہوگی مگر یہ رویہ برقرار رہا کہ کرکٹرز کو دھکامار دیا، جو 5لاکھ لیتا تھا، اس کو 25لاکھ دینا شروع کردیے، یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ جو پہلے ہی مالدار ہیں ان کو مزید نواز دو اور جو بمشکل گزارا کررہے ہیں،انھیں بھوکا مار دو۔
عاقب جاوید نے کہا کہ بدقسمتی سے دیگر اسپورٹس بھی بند ہوگئے،کھلاڑیوں کو اور تو کچھ کرنا آتا نہیں، بچے بھوکے مر رہے ہیں، بیویاں رورہی ہیں، میرے خیال میں تو عمران خان کو بھی ان خاندانوں کی بددعائیں لگ گئیں۔
انہوں نے کہا کہ ریجنل کرکٹ اکیڈمیز کا سسٹم بہترین اور دوسروں کیلیے مثال تھا،اس سے اچھے نتائج بھی سامنے آرہے تھے، 2006میں بھارتی ٹیم کے ساتھ پاکستان آنے والے عہدیداروں نے درخواست کی تھی کہ ان کو نیشنل کرکٹ اکیڈمی سمیت سسٹم کے بارے میں بتایا جائے،دلچسپ امر یہ ہے کہ رمیز راجہ ہی اس وقت ڈائریکٹر کرکٹ اکیڈمیز تھے، گریڈ ون اور ٹو کی ٹیمیں تھیں، ڈپارٹمنٹس تھے مگر سب ختم ہوگیا۔