قدرے نئے کیمروں میں چہروں کی شناخت کےلیے نیئر انفراریڈ کیمرے کی سہولت موجود ہے اور ایپ بھی انہیں ہی استعمال کرتی ہے۔ یہ آنکھ کی پتلی کی جسامت میں تبدیلی کو نوٹ کرتے ہوئے اکتسابی تنزلی سے آگاہ کرتی ہے۔
اس کی تفصیل حال ہی میں اے سی ایم کمپیوٹر ہیومن انٹرایکشن کانفرنس میں پیش کی جائے گی جو 30 اپریل سے 5 مئی تک جاری رہے گی۔
تحقیق سے وابستہ پروفیسر کولِن بیری اور ان کے ساتھیوں نے کہا ہے کہ اگرچہ مزید تحقیق کی ضرورت تو ہے لیکن اس ٹیکنالوجی کو اعصابی اور دماغی اسکریننگ کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ گھر اور عام جگہوں پر بھی اسے آزمایا جاسکتا ہے۔ توقع ہے کہ اس سے دماغی امراض کی تشخیص کے نئے در کھلیں گے۔
حالیہ چند برسوں میں معلوم ہوا ہے کہ آنکھ کے اندر موتی کی طرح گول پتلی کی جسامت سے دماغی کیفیات سے آگہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ مثلاً مشکل دماغی کام کے دوران یا کسی زوردار آواز سن کر آنکھ کی پتلی پھیل جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنکھ کی پتلی کے سکڑنے اور پھیلنے پر کئی ٹیسٹ بنائے گئے ہیں جو آسانی سے کئی اعصابی امراض کا پتا دیتے ہیں لیکن اس سے قبل صرف تجربہ گاہ میں کسی ماہر کی نگرانی اور مہنگے آلات کے تحت ہی ایسا ممکن تھا۔
جامعہ کیلیفورنیا کے تحت ڈجیٹل ہیلتھ لیب کے ماہرین نے کئی دماغی طبیبوں کے تعاون سے اسمارٹ فون کیمرےکے تجربات کئےہیں۔ اس طرح یہ کسی تکلیف کے بغیر آبادی کی بڑی تعداد میں تیزی سے دماغی امراض کی شناخت کا اہم ٹول بن سکتا ہے۔ بالخصوص اس سے الزائیمر کا مرض معلوم کیا جاسکتا ہے۔
نیئر انفراریڈ طیف (اسپیکٹرم) پر آنکھ کی پتلی میں تبدیلی معلوم کی جاسکتی ہے۔ اس سے ملی میٹر کے بھی معمولی حصے تک کی تبدیلی ایپ سے معلوم کی جاسکتی ہے۔ ایپ پہلے عام رنگ و روشنی اور اس کے بعد نیئر انفراریڈ سے آنکھ کا معائنہ کرتی ہے۔
واضح رہے کہ ایپ عین پپلومیٹر کی طرح کام کرتی ہے جو پتلی کے سائز ناپنے کا عالمی معیاری آلہ اور پیمانہ بھی ہے۔ اس کے علاوہ ایپ میں بہت سے فیچر بھی شامل کئے گئے ہیں۔ تاہ آنکھ پر پلاسٹک کا یک جشمی آلہ (اسکوپ) رکھنا پڑتا ہے جو بہت ارزاں اوراستعمال میں آسان ہے۔ اس کے بعد ایپ آواز کے ذریعے استعمال کی رہنمائی کرتی ہے۔ اس طرح بزرگ افراد بھی آنکھ کا معائنہ ازخود کرسکتے ہیں۔
اس طرح پتلی میں تبدیلی سے الزائیمرکے اولین حملے سے آگہی حاصل کی جاسکتی ہے۔