ملتان میں واقع مینگوریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایم آر آئی) کے ڈاکٹر عبدالغفار نے بتایا کہ اس ضمن میں درجہ حرارت میں نمایاں کمی گزشتہ ماہ 11 سے 17 مارچ میں دیکھی گئی جب درجہ حرارت 37 سینٹی گریڈ سے 42 درجے سینٹی گریڈ تک جاپہنچا جبکہ گزشتہ برس اسی ماہ درجہ حرارت اوسط 37 درجے سینٹی گریڈ تک تھا۔
یہی وجہ ہے کہ آم کی کاشت میں سب سے اہم مہینے میں درجہ حرارت میں اضافے کا اثر پیداوار میں کمی پر پڑا ہے۔ عبدالغفار نے بتایا کہ پھول کھلنے کے اہم عمل کے دوران موسمیاتی شدت نے پاکستان کی اہم فصل کو شدید نقصان پہنچایا ہے جس سے اب پیداوار میں کمی 60 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
تاہم کلائمٹ چینج کے علاوہ دیگر عوامل نے بھی آم کی فصل پر قیامت ڈھائی جس میں پھل بننے کے عمل کے دوران پانی کی کمی سامنے آئی اور کنال واٹر میں نمایاں کمی ہوئی ، اس کے علاوہ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور ڈیزل کی کمی نے رہی سہی کسر پوری کردی۔
آم کی کاشت سےوابستہ کسان شاہد حمید بھٹہ نے بتایا کہ بجلی کی کمی کی وجہ سے ٹیوب وھیل نہیں چلے اور فصلوں کو بروقت پانی نہ ملنے سے آم کی پیداوار کو شدید دھچکا پہنچا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ آب و ہوا میں تبدیلی کا اس میں اہم کردار ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔