غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق چین کی جانب سے کیا جانے والا یہ اقدام تیزی سے حرکت کرتے ہدف کو نشانہ بنانے کے مسئلے کو حل کرنے کے پیشِ نظر ہے۔
یینگ شیاؤگانگ کی رہنمائی میں کام کرنے والی پی ایل اے راکٹ فورس یونیورسٹی آف انجینیئرنگ کی محققین کی ٹیم کا کہنا تھا کہ ان کو ہائپر سونک ٹیکنالوجی کے پیچیدہ نظر آنے والے مسائل کے حل کرنے کے لیے 2025 تک کی مہلت دی گئی تھی۔
چینی جریدے انفرا ریڈ اینڈ لیزر انجینیئرنگ میں شائع ہونے والے مقالے میں سائنس دانوں کی ٹیم نے بتایا کہ ایک تیز رفتار میزائل سیکنڈ کے حصے میں طویل فاصلہ طے کر سکتا ہے اور ہدف کے تعین کرنے اور رہنمائی کے نظام میں معمولی سی غلطی ایک بڑے نقصان کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
مقالے میں بتایا گیا کہ حرکت کرتے چھوٹے ہدف کا انفرا ریڈ نشان بغیر تفصیل والی چند پِکسلز کی تصویر بناتا ہے، جو شناخت اور پیچھا کرنے کے عمل کو نہایت مشکل کر دیتا ہے۔
سائنس دانوں نے بتایا کہ اس نئے ہائپر سونک میزائل کے ساتھ چینی فوج خطے کی جنگ میں ہائپر سونک اسلحوں کے استعمال کا دائرہ بڑی حد تک بڑھا سکتی ہے۔
یینگ شیاؤگانگ کے مطابق ٹیم کے پاس شناخت اور پیچھا کرنے کا نیا طریقہ کار ہے جس کو انہوں نے تیز حرکت کرتے ہدف کے لیے مزید بہتر بنایا ہے۔
گزشتہ برسوں میں چین نے اپنی توجہ کا مرکز حرکت کرتے اہداف کے حوالے سے اپنی صلاحیت کو بنایا ہے۔
اس کوشش میں ایک ایئر کرافٹ کیریئر کا نمونہ بھی شامل ہے جو صحرائے گوبی کی فائرنگ رینج میں پٹریوں پر بنایا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق چینی فوج کا ماننا ہے کہ ہائپر سونک ہتھیار جنگ کو بدل کر رکھ دیں گے۔ اس ہی لیے چین اس ٹیکنالوجی میں برتری حاصل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
پی ایل اے کے ہائپر سونک پروگرام میں 3000 ہزار کے قریب سائنس دان شریک تھے جن کا کہنا ہے کہ یہ ایک انتہائی اہم پیش رفت ہے۔