غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق صدارت کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد ایشیاء کے پہلے دورے پر جو بائیڈن کی جانب سے تائیوان کی حمایت میں یہ سخت بیان پیر کے روز ٹوکیو میں کی جانے والی ایک پریس کانفرنس میں دیا گیا۔
صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ روس کے یوکرین پر بلا اشتعال حملے کے بعد اس خود مختار جزیرے کی حفاظت کی ذمہ داری اور بھی بڑھ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین کی جانب سے تائیوان کے خلاف کی جانے والی کوئی بھی کوشش مناسب نہیں ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کا کوئی حملہ پورے خطے کو متاثر کرے گا اور یہ صورتحال بالکل یوکرین کے مماثل ہوگی۔
جاپان کے دارالحکومت میں دیئے جانے والے بیان کے بعد امریکا کی تائیوان کے حوالے سے موجودہ مبہم اسٹریٹیجک پالیسی میں وضاحت سامنے آئی ہے۔
اس سے قبل امریکا نے تائیوان کی حکومت کی حمایت کرنے کا وعدہ تو کیا ہے لیکن یہ بات واضح نہیں تھی کہ اگر تائیوان پر حملہ کر دیا جاتا ہے تو امریکا کا کیا ردِ عمل ہوگا۔
واشنگٹن کا کہنا ہے کہ امریکا ’ون چائنا پالیسی‘ کو مانتا ہے جس کا مطلب ہے کہ چین کے ساتھ صرف رسمی سفارتی تعلقات ہیں جبکہ تائیوان کے ساتھ غیر رسمی بات چیت جاری رہتی ہے۔
دوسری جانب بیجنگ ’ون چائنا پرنسپل‘ کو مانتا ہے جس کے مطابق چین ایک ایسی اکائی ہے جس میں تمام متنازع خطے، بشمول تائیوان، شامل ہوتے ہیں۔
چینی صدر شی جن پنگ نے کچھ عرصہ پہلے تائیوان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا اور اس مقصد کے لیے طاقت کے استعمال کو خارج از امکان قرار نہیں دیا ہے۔
تائیوان کے مطابق چین کی جانب سے گزشتہ برس سے عسکری سرگرمیوں میں شدت لائی گئی ہے۔
تائیوان نے چین کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کو دباؤ ڈالنے کے ہتھکنڈے قرار دیا ہے تاکہ تائیوان خود کو چین کے ساتھ ضم کر لے۔
واضح رہے جنگِ عظیم دوم کے بعد سے تائیوان کا وجود بطور خود مختار ریاست رہا ہے۔