یہ تصویر دنیا بھر کے آٹھ مقامات پر موجود ایونٹ ہورائزن ٹیلی اسکوپ ( ای ایچ ٹی) کے مجموعے نے جاری کی ہے جو باہم مل کر ایک بڑی دوربین کی طرح کام کرتی ہیں۔
سال 2017ء میں ای ٹی ایچ نے سائنسدانوں کی توجہ دو بلیک ہول کی جانب مبذول کرائی تھی جن میں سے ایک ملکی وے کہکشاں کی جھرمٹ قوس یا سیگیٹیریئس کے پاس دیکھا گیا اور اسے سیگیٹیریئس اے یا ایس جی آر اے(Sgr A*) کا نام دیا گیا تھا، جبکہ دوسرا بلیک ہول ایم 87 کہکشاں میں دیکھا گیا جسےM87* کا سائنسی نام دیا گیا ہے۔
ای ایچ ٹی سے وابستہ سائنسداں زائری یونسی نے کہا ہم جو چاہتے تھے وہ مل گیا اور یہ وہ تصویر ہے جو بتاتی ہے کہ بلیک ہول کیسا دکھائی دیتا ہے۔
واضح رہے کہ بلیک ہول کوئی روشنی خارج نہیں کرتا لیکن تصویر میں ایک روشن پس منظر کے آگے بلیک ہول کا سایہ دکھائی دے رہا ہے۔ پس منظر کی روشنی گرم تاباں پلازمہ کی ہے جسے Sagittarius A* اپنی جانب کھینچ رہا ہے اور مادہ منتشر ہورہا ہے۔
بلیک ہول سازی کا یہ عمل ایم 87 کے مقابلے میں ہماری کہکشاں میں قدرے تیزی سے ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ اس تصویر کی تشکیل میں بہت وقت لگا ہے۔ M87* معلومہ کائنات کا سب سے بڑا بلیک ہول بھی ہے جس کی جسامت ہمارے سورج سے ساڑھے چھ ارب گنا زائد ہے اور یہ سیگیٹیریئس اے سے بھی 1000 گنا زائد ہے۔
پلازمہ کو M87* کے مدار میں چکر لگانے میں چند دن سے چند ہفتے لگتے ہیں جبکہ Sgr A* میں گرم پلازمہ کا ایک چکر منٹوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔
’اس کا مطلب یہ ہے کہ Sgr A* کی اطراف گیسوں کی روشنی اور خدوخال (پیٹرن) بہت تیزی سے بدلتے رہتے ہیں۔ مشاہدے میں بھی یہ اس کی تیزی ’گول گول گھومتے اس کتے کی طرح دیکھی گئی جو خود دائرے میں اپنی دم کا تعاقب کررہا ہوتا ہے،‘ جامعہ ایریزونا کے سائنسداں چائی کوان چین نے بتایا۔
ایک اور مشکل یہ تھی کہ زمین ملکی وے کہکشاں کے کنارے پر واقع ہے اور یوں ہمارا سامنا تمام ستاروں کی روشنیوں، گردوغبار،اور خود Sgr A* بلیک ہول اور زمین کے درمیان اجسام سے بھی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حتمی تصویر کشی کے لیے سپرکمپیوٹر سے مدد لی گئی جس نے ڈیٹا پروسیسنگ میں مدد لی گئی۔ کئی راتوں تک ریڈیائی تصاویر جمع کی گئیں اور ان کا مطالعہ کیا گیا۔
زائری یونسی نے بتایا کہ Sgr A* کی تصویر بنانا بہت مشکل امر تھا اور تمام سائنسدانوں نے اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔
جب حتمی تصویر سامنے آئی تو وہ کیفیت اور جسامت میں فرق کے باجود 2019 کے M87* کی تصویر جیسی ہی تھی۔ یہ دونوں بلیک ہول کمیت(ماس)، کہکشانی ساخت اور دیگر امور کی بنیاد پر ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں لیکن جب ان دونوں کو غور سے دیکھا جائے تو باہم مشابہہ لگتے ہیں۔ اس طرح آئن اسٹائن کا نظریہ اضافیت عمومی (جنرل ریلیٹی ٹیوٹی) بھی یہاں نمایاں دکھائی دیتا ہے۔
تصویر میں روشنی کا دائرہ آئن اسٹائن کے ںظریہ اضافیت کو ثابت کرتا ہے کیونکہ ملکی وے میں موجود بلیک ہول کی ثٖقلی قوت اتنی زیادہ ہے کہ پیچھے سے آنے والی روشنی کی موجیں خمیدہ (بینڈ) ہوگئی ہیں۔ پر گھومتا ہوا پلازمہ قدرے روشن نظر آرہا ہے جبکہ بلیک ہول کے پچھلے جانب روشنی چکر کاٹ رہی ہے۔
اس موقع پر ڈاکٹر یونسی نے کہا کہ کئی دہائیوں بعد آئن اسٹائن کی پیشگوئی اور نظریہ درست ثابت ہوا ہے۔