محققین کا کہنا تھا کہ یہ مٹیریل پلاسٹک کی طرح بنایا جا سکتا ہے لیکن دھات کی طرح اس میں سے بجلی بھی گزر سکتی ہے۔ اگرچہ یہ دریافت سائنس دانوں کے توقعات کے خلاف جاتی ہے لیکن مستقبل میں متعدد پیشرفت کا سبب بن سکتی ہے۔
یونیورسٹی آف شیکاگو میں کیمسٹری کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور تحقیق کے سینئر مصنف جان اینڈرسن کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر یہ مٹیریل ایک نئی ساخت کے مٹیریل کے لیے دروازہ کھولتا ہے جن سے بجلی گزر سکتی ہے، ان کو شکل دینا آسان ہوتا ہے اور روزمرہ کی کیفیات میں یہ بہت مضبوط ہوتے ہیں۔
سائنس دانوں نے تمام اقسام کے ایصالی مٹیریلز بنائے ہیں اور ان مٹیریلز میں موجود فرق سے ہم مختلف صورتوں میں کام کرنے والے مختلف اقسام کے برقی آلات بنا پاتے ہیں۔
لیکن تمام تر اختلافات کے ساتھ یہ ایصالی مٹیریلز آپس میں کچھ مماثلتیں بھی رکھتے ہیں۔ یہ مٹیریلز ایسے ایٹمز یا مالیکیولز سے بنائے جاتے ہیں جو سیدھ میں حرکت کرتے ہیں اور گنجان قطاروں میں ہوتے ہیں جس کے متعلق سائنس دانوں کا خیال تھا کہ یہ بجلی کے مؤثر انداز میں گزر کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔
البتہ، اس نئی تحقیق میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک نئی قسم کا مٹیریل بنایا ہے جس میں یہ ٹکڑے ترتیب میں نہیں ہیں، الجھے ہوئے ہیں اور پھر بھی اس میں بہتر طریقے سے بجلی گزر سکتی ہے۔
پروفیسر اینڈرسن کے مطابق بنیادی طور پر اس کو دھات ہونے کے قبل نہیں ہونا چاہیئے لیکن اس کو سمجھنے کے لیے کوئی ٹھوس تھیوری موجود نہیں ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس مٹیریل کو متعدد مختلف شکلیں دی جاسکتی ہیں۔
اس کے بنانے والوں نے اس کو ’ایصالی پلے ڈو‘ کا نام دیا ہے کیوں کہ مختلف شکلوں میں ڈھالے جانے کے باوجود اس میں سے بجلی گزر سکتی ہے۔