ہمارے نظامِ شمسی میں سورج کے قریب موجود سیارے مثلاً عطارد، زہرہ، زمین اور مریخ قدرے پتھریلے اور ٹھوس ہیں جبکہ اس کے پیچھے والے سیارے گیسوں پر مشتمل ہیں اور ان دونوں کے ارتقا کے اپنے اپنے مروجہ نظریات ہیں۔
1815 میں فرانس سے ملنے والے ایک مریخی پتھر ’شیسینی شہابئے‘ پر ایک عرصے سے تحقیق جاری تھی تاہم اب نئی ٹیکنالوجی سے معلوم ہوا ہے کہ اگرچہ سیارہ مریخ 40 لاکھ سال میں تشکیل پا چکا تھا لیکن اس میں بعض گیسوں مثلاً کرپٹون کی موجودگی ایک معمہ ہے۔
دوسری جانب ہماری اپنی زمین پانچ سے دس کروڑ سال میں بنی تھی۔ ماہرین کے مطابق شیسینی پتھر ایک غیرمعمولی شہابیہ ہے۔ خیال ہے کہ مریخ سے ایک بڑی چٹان ٹکرائی تھی اور اس سے بہت گہرائی میں مریخی پتھر ٹوٹ کر زمین پر پہنچا تھا۔ اس سے قبل مریخ کے جتنے بھی شہابئے ہمیں ملے ہیں وہ اس کی اوپری سطح سے تعلق رکھتے تھے لیکن شیسنی قدرے گہرائی کا پتھر ہے کیونکہ اس کی کیمیائی ترکیب بہت مختلف ہے۔
جامعہ کیلیفورنیا کے پروفیسر سیندرائن پائرن اور ان کے ساتھیوں نے کرپٹون 84 اور کرپٹون 86 کا باہم موازنہ کیا ہے۔ اس سے پتا چلا ہے کہ نظامِ شمسی کے اولین دور کے واقعات کو جس طرح مرحلہ وار بیان کیا جاتا ہے ان کا دورانیہ یا تو غلط ہے یا پھر کوئی خامی ہے۔
ہمارے جوان سورج کے گرد گھومتے ہوئے گیسی نیبولہ کی طشتری سے ہی تمام سیارے تشکیل پائے تھے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے آثار اب بھی پائے جاتے ہیں۔ لیکن تیزی سے اڑنے والی گیسوں کا معاملہ پیچیدہ ہوتا ہے جن میں آکسیجن، ہائیڈروجن اور دیگر نایاب گیسیں شامل ہیں، جو ابتدائی سیاروی تشکیل میں فرار ہوسکتی تھیں۔ اب اگر کسی سیارے کے پتھر سے نایاب گیس ملتی ہے تو دو باتیں ہوسکتی ہیں: یا تو گیس فرار ہونے سے بچ رہیں یا پھر وہاں دیگر شہابی پتھروں سے پہنچیں اور اب کس بات کو مانا جائے اور کسے رد کیا جائے؟
چونکہ مریخ صرف 40 لاکھ برس میں تشکیل پا گیا تھا اور وہاں کرپٹون گیسوں کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ مریخ نے نیبولہ مراحل کے دوران ہی اسے حاصل کیا تھا۔ اس سے خود مریخ کی تشکیل اور اس کے ادوار کی طوالت پر سوالات اٹھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس تحقیق کو غیر معمولی قرار دیا جا رہا ہے۔