106

کیمسٹری کا نوبل انعام؛ کیمیا کی نئی شاخ کا تصور پیش کرنیوالے سائنس دانوں کے نام

69 Views

رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنسز نے کیمسٹری کا نوبل انعام 2022 امریکی یونیورسٹی اسٹینفورڈ یونیورسٹی سے وابستہ خاتون سائنس دان کیرولین آر برٹوزی، ڈنمارک کی یونیورسٹی آف کوپن ہیگن کے مورٹن میلڈال اور امریکی تحقیقی ادارے اسکریپس ریسرچ سے منسلک کے بیری شارپلس کو مشترکہ طور دیا گیا ہے۔

ان تینوں سائنس دانوں کو کیمیا کی شاخوں کلک کیمسٹری اور بائیو آرتھوگونل کیمسٹری کے شعبے میں کی گئی تحقیق پر دی گئی ہے جس نے کیمیا کی ان شاخوں کو نئی جہت بخشی اور نئے حقائق سامنے لائے اور ایک مشکل عمل کو آسان بنایا اتنا کہ جیسے یہ تحقیق کہتی ہو کہ صرف ’’کلک‘‘ کریں اور مالیکیول کے جوڑوں کے بغیر تخرینی عمل کے ایک ساتھ ملنے کا مظہر دیکھیں۔
امریکی تحقیقی ادارے اسکریپس ریسرچ سے منسلک کے بیری شارپ لیس اور ڈنمارک کی یونیورسٹی آف کوپن ہیگن کے مورٹن میلڈال نے کیمسٹری کی ایک فعال قسم ’’کلک کیمسٹری‘‘ کی بنیاد رکھی ہے جس میں مالیکیولر بلڈنگ بلاکس تیزی سے اور مؤثر طریقے سے اکٹھے ہوتے ہیں۔ تاہم امریکی خاتون سائنس دان کیرولین برٹوزی نے کلک کیمسٹری کو ایک نئی جہت پر لے جا کر جانداروں میں اس کا تجربہ شروع کیا اور کامیاب رہیں۔

دوا سازی کی تحقیق میں اکثر دواؤں کی خصوصیات کے ساتھ قدرتی مالیکیولز کو مصنوعی طور پر دوبارہ بنانا شامل ہوتا ہے۔ اسی لیے کیمیا دان طویل عرصے سے پیچیدہ مالیکیولز بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بہت سے قابل تعریف مالیکیولر بنے لیکن یہ عام طور پر وقت طلب اور ان کی پیداواری لاگت بھی زیادہ ہوتی ہے تاہم اب اس کا حل ان تینوں سائنس دانوں نے پیش کردیا۔

کیمسٹری کی نوبل کمیٹی کے سربراہ جان ایکوسٹ نے بتایا کہ کیمیا میں رواں سال کا نوبل انعام انہی سائنس دانوں کو دیا جا رہا ہے جن کی تحقیق سے تعاملات کو زیادہ پیچیدہ کرنے کے بجائے آسان سے آسان طریقوں کے ساتھ کرنا ممکن ہوا یعنی ایک سیدھا راستہ اختیار کر کے بھی فنکشنل مالیکیولز بنائے جا سکتے ہیں۔

امریکی سائنس دان بیری شارپلس جنہیں اب کیمسٹری میں دوسری بار نوبل انعام دیا جا رہا ہے اس سے قبل 2001 میں حاصل کیا تھا۔ وہ دو نوبل انعام لینے والے پانچویں سائنس دان بن گئے ہیں۔ اس بار بیری شارپلس کو 1998ء سے 2000 ء کے درمیان کیمیا کی نئی شاخ ’’کلک کیمسٹری‘‘ کا تصور پیش کرنے پر دیا گیا جو سادہ اور قابل اعتماد کیمسٹری کی ایک شکل ہے جہاں تعاملات (reactios) تیزی سے ہوتے ہیں اور ناپسندیدہ ضمنی مصنوعات سے بچا جاتا ہے۔

بیری شارپلس کے کلک کیمسٹری کا تصور پیش کرنے کے کچھ ہی عرصے بعد ڈنمارک کے سائنس دان مورٹن میلڈال نے بھی اس تحقیق میں اپنا حصہ ڈالا اور the copper catalysed azide-alkyne cycloaddition نظریہ پیش کیا۔ اس نظریے کو کلک کیمسٹری کا تاج سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک خوبصورت اور موثر کیمیائی تعاملات ہے جو اب بڑے پیمانے پر استعمال ہورہا ہے بالخصوص دوا سازی کی صنعت اور ڈی این اے کا نقشہ بنانے میں کارگر ثابت ہوا ہے۔

ان دونوں سائنس دانوں کے کلک کیمسٹری کے کام کو امریکی خاتون سائنس دان کیرولین برٹوزی نئی سطح پر لے گئیں اور اس کا تعلق آرتھوگونل کیمسٹری سے جوڑا۔ انھوں نے خلیوں کی سطح پر موجود ’’گلائکینز‘‘ نامی اہم لیکن مبہم بائیو مالیکیولز کا نقشہ بنانے کے لیے ’’کلک کیمسٹری‘‘ کی مدد سے تعملات (reactions) تیار کیے جو جانداروں میں بھی کام کرتے ہیں اور سب سے اہم بات خاتون سائنس دان کے اس بائیو آرتھوگونل تعاملات نے خلیے کی اپنی کیمسٹری میں خلل ڈالے بغیر کام کیا۔

امریکی خاتون سائنس دان کے تیار کردی یہ تعاملات (reactions) اب عالمی سطح پر خلیات کو دریافت کرنے اور حیاتیاتی عمل کو ٹریک کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ بائیو آرتھوگونل تعاملات کو استعمال کرتے ہوئے محققین نے کینسر کی دواسازی کے ہدف کو بہتر بنایا ہے جس کے اب کلینیکل ٹرائلز جاری ہیں۔

امریکی خاتون سائنس دان کی یہ تحقیق ’’کلک کیمسٹری اور بائیو آرتھوگونل تعاملات‘‘ علم کیمیا کو فنکشنلزم کے دور میں لی گئی جو انسانیت کی عظیم فلاح کی جانب آغاز ہے۔

خیال رہے کہ نوبل انعام کا اعلان کرنے والی رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنسز کی بنیاد 1739 میں رکھی گئی تھی۔ یہ ایک آزاد تنظیم ہے جس کا مقصد سائنس کو فروغ دینا اور معاشرے میں اس کے اثر و رسوخ کو مضبوط کرنا ہے۔ اکیڈمی کی زیادہ توجہ نیچرل سائنسز اور ریاضی میں ہے تاہم یہ مختلف شعبوں کے درمیان خیالات کے تبادلے کو فروغ دینے کے لیے بھی کوشاں رہتی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس کیمسٹری کا نوبل انعام ’’ایسمٹرک آرگینو کیٹالیسس‘‘ کہلائے جانے والے کیمیائی عمل کی دریافت پر جرمنی کے بنجمن لسٹ اور امریکا کے ڈیوڈ میکملن کو مشترکہ طور پر دیا گیا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں