یونیورسٹی آف پلائی ماؤتھ کے محققین نے ایک سمندری کوڑا دان کا مطالعہ کیا جو مستقل بنیادوں پر پانی اندر کھینچتا ہے پانی کو فلٹر کر کے واپس لوٹا دیتا ہے۔
محققین کو معلوم ہوا کہ کوڑے دان میں اکٹھی ہونے والی ہر 3.6 اشیاء میں ایک سمندری حیات پھنسی ہوتی ہے جس کا مطلب ہیں روزانہ 13 مخلوقات کوڑا میں پھنستی ہیں۔ ان مخلوقات میں ریت میں مسکن بنانے والی بام مچھلی، بھورے جھینگے اور کیکڑے شامل ہیں۔
محققین کے مطابق ان حیاتیات کے کوڑے دان میں پھنسنے کے بعد نکالے جانے پر تقریباً 60 فی صد تعداد مردار پائی گئی۔ ان میں سے کچھ اس آلے میں داخل ہونے کے بعد مرے۔
صفائی کے اس طریقے کا جب ہاتھ سے کی جانے والی صفائی سے موازنہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ دستی صفائی سے کچرا زیادہ مقدار میں اکٹھا ہوتا ہے جبکہ آبی حیات کو کم خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
تحقیق کی سرابرہ مصنفہ فلورینس پارکر-جرڈ کا کہنا تھا کہ تحقیق بتاتی ہے کہ بندرگاہوں یا ڈاک کی صفائی اگر دستی کی جائے تو یہ زیادہ بہتر ہوتی ہے اور اس پر کم خرچ آتاہے۔ صفائی کا یہ طریقہ کار آبی حیات کو لاحق کسی بھی ممکنہ خطرے کے امکانات کو کم کرسکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق ان آلات کوعالمی سطح پر سمندری ماحول کو پلاسٹک کی آلودگی سے پاک کرنے کے لیے مددگار سمجھا جارہا ہے۔دنیا بھرمیں سیکڑوں ’سی بِن‘ بندرگاہوں، مریناز اور یاٹ کلبز میں نصب کیے جاچکے ہیں۔
ان کوڑے دانوں میں 25 کلوگرام وزن سے زیادہ کچرا جمع کیے جانے کے متعلق بتایا جاتا ہے لیکن محققین کی ٹیم چاہتی ہے کہ ان آلات کی کارکردگی کو پہلی بار باقاعدہ خودمختار آزمائش سے گزارے۔
مرین پولوشن بلٹ اِن میں شائع ہونے والی تحقیق کے لیے محققین نے جنوب مغربی برطانیہ کی کاؤنٹی ڈِیون کے شہر پلائی ماؤتھ میں نصب ’سمندری کچرا دان‘ کا مطالعہ کیا۔