ڈان ڈاٹ کام کے مطابق امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ دوسرے ممالک پر روس سے پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات پر فی الحال پابندی نہیں ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان سے یہ پوچھا گیا تھا کہ کیا پاکستان اور دیگر ممالک بھی اسی طرح روسی تیل درآمد کر سکتے ہیں جیسے بھارت کر رہا ہے۔
جس کے جواب میں انھوں نے مزید کہا کہ امریکا واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ ہر ملک کو روس سے تیل کی درآمدات کا فیصلہ اپنے اپنے حالات کو دیکھ کر کرنا ہوگا۔
تاہم ترجمان محکمہ خارجہ نے نشاندہی کی کہ امریکی محکمہ خزانہ پہلے ہی ایک عام لائسنس جاری کر چکا ہے جو منظور شدہ روسی بینکوں کے ساتھ تیل کی خریداری کے لیے لین دین کی اجازت دیتا ہے لہذا ایسی ادائیگیاں جاری رہ سکتی ہیں۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ امریکی پابندیاں جو سال کے آغاز میں یوکرین پر روسی حملے کے بعد لگیں ان میں توانائی، تجارت اور نقل و حمل سے متعلق ادائیگیوں کے طریقہ کار میں تبدیلی کرتے ہوئے قدرے سختیاں کی گئی تھیں۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق ان پابندیوں کا مقصد روس کو تیل برآمد کرنے والا ایک بڑا فروخت کنندہ بنانے سے روکنا تھا۔
ترجمان امریکی وزارت خارجہ نے یہ بھی بتایا کہ بھارت اور یورپی اتحادیوں سمیت شراکت داروں کے ساتھ بات چیت جاری ہے تاکہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی یوکرین پر جارحیت سے عالمی منڈیوں پر پڑنے والے اثرات کو کم کیا جا سکے۔
خیال رہے کہ بھارتی میڈیا نے پہلے دن میں اطلاع دی تھی کہ روس نے تیل برآمد کرنے میں روایتی فروخت کنندگان سعودی عرب اور عراق کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ G7 ممالک کے گروپ کی طرف سے تجویز کردہ منصوبے کے برعکس بھارت نے تیل کی خریداری جاری رکھی ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ بھارت میں اب روسی تیل کُل خام درآمدات کا 22 فیصد ہے جب کہ عراق کی 20.5 اور سعودی عرب کی 16 فیصد سے زائد ہے۔