’جب پولیس میں بھرتی ہوئی تو یہی عزم تھا کہ بے شک میں کانسٹیبل ہوں لیکن کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرنی اور سب سے انصاف کرنا ہے ۔ مگر یہ وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میرے اس انصاف کا شکار میرے ہاتھوں اپنے والد صاحب ہی ہو جائیں گے۔‘
یہ کہنا ہے پنجاب کے ضلع قصور کی تحصیل چونیاں میں پنجاب ہائی وے پٹرولنگ پولیس میں تعینات خاتون کانسٹیبل سمیرا صدیق کا ، جنھوں نے دورانِ ڈیوٹی ہیلمٹ نہ پہننے پر اپنے والد کا چالان کر دیا۔ اس واقعہ کے بعد اب سوشل میڈیا پر اُن کی فرض شناسی کو کافی سراہا جا رہا ہے۔
’ٹیچر بننا پسند نہیں تھا، وردی اچھی لگتی تھی‘
بی بی سی نے کانسٹیبل سمیرا صدیق سے بات کی ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ اُن کا تعلق چونیاں کے قصبہ الہ آباد کے ایک لوئر مڈل کلاس گھرانے سے ہے اور ان کے والد کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ اپنے سات بہن بھائیوں میں سمیرا پانچویں نمبر پر ہیں۔
سمیرا بتاتی ہیں کہ اُن کی بڑی بہنیں ٹیچنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں جبکہ انھوں نے خود پنجاب یونیورسٹی سے سپیشل ایجوکیشن میں ماسٹرز کیا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان کے والدین اور بہن بھائیوں نے مشورہ دیا کہ ’تم بھی ٹیچنگ شروع کر دو۔‘
تاہم سمیرا کہتی ہیں کہ ’ مجھے ٹیچنگ کے شعبے کی بجائے وردی پسند تھی۔ اس میں انسان کی الگ ہی باوقار شخصیت ہوتی ہے اور پولیس کا شعبہ ایسا ہے جس میں انسان کے پاس فیصلہ کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ اگر آپ خدا کو حاضر ناظر جان کر انصاف کریں تو اس سے بہتر کوئی اور محکمہ نہیں ہو سکتا۔‘
سمیرا کا کہنا تھا کہ جب گذشتہ سال محکمہ ہائی وے پٹرولنگ پولیس میں نوکریوں کا اشتہار شائع ہوا تو انھوں نے اپنے والد صاحب سے درخواست دینے کی اجازت مانگی۔ ’خوشی اس بات کی ہے کہ دیہات کے پس منظر سے تعلق ہونے کے باوجود انھوں نے انکار نہیں کیا اور کہا کہ جیسے تم خوش ہو، ویسا کر لو۔‘
سمیرا کو حال ہی میں ضلع قصور کی تحصیل چونیاں میں پنجاب ہائی وے پٹرولنگ پولیس میں تعینات کیا گیا ہے
’میں نے بھرتی کے تمام مراحل کامیابی سے طے کیے، این ٹی ایس ٹیسٹ پاس کیا ، دوڑ کا ٹیسٹ ، فزیکل ٹیسٹ اور قد کی پیمائش میں بھی پاس ہو گئی ، آخر میں انٹرویو ہوا جو کہ بہت اچھا ہو گیا، جب میرٹ لسٹ لگی تو میں کامیاب تھی۔ اس وقت میرٹ لسٹ دیکھ کر میری آنکھوں میں پہلی بار خوشی سے آنسو آ گئے۔‘