یہ 14 جولائی 1948 کا دن تھا جب اس وقت کے گورنر جنرل محمد علی جناح کو ان کی علالت کے پیش نظر کوئٹہ سے زیارت منتقل کیا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ فقط 60 دن زندہ رہے اور 11 ستمبر 1948 کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ بابائے پاکستان کے یہی آخری 60 دن اس تحریر کا موضوع ہیں۔
یہ پراسرار گتھی آج تک حل نہیں ہوسکی کہ ’قائد اعظم‘ محمد علی جناح کو شدید بیماری کے عالم میں کوئٹہ سے زیارت منتقل ہونے کا مشورہ کس نے دیا تھا۔
زیارت اپنے صنوبر کے درختوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے اور کوئٹہ سے 133 کلو میٹر فاصلے پر 2449 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ جگہ ایک بزرگ خرواری بابا کی آخری آرام گاہ کی نسبت سے زیارت کہلاتی ہے اور جناح کی آرام گاہ یا ’قائد اعظم ریزیڈنسی‘ زیارت سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
ان کی بہن فاطمہ جناح نے اپنی کتاب ’مائی برادر‘ میں تحریر کیا ہے کہ کوئٹہ سے زیارت منتقل ہونے کا فیصلہ جناح کا ذاتی فیصلہ تھا کیونکہ ان کی سرکاری اور غیر سرکاری مصروفیات کے باعث کوئٹہ میں بھی انھیں آرام کا موقع بالکل نہیں مل رہا تھا اور مختلف اداروں اور مختلف رہنماؤں کی جانب سے انھیں مسلسل دعوتیں موصول ہو رہی تھیں کہ وہ ان کے اجتماعات میں شرکت کریں اور ان سے خطاب کریں۔
تاہم یہ بات پھر بھی محل نظر ہے کہ جناح کو زیارت کے بارے میں کس نے بتایا تھا اور وہاں منتقل ہونے کا مشورہ کس نے دیا تھا۔