0

ٰذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا: سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس پر آج سماعت

66 Views

بھٹو ریفرنس میں سپریم کورٹ نے کون سے پانچ سوالات کا جواب دینا ہے؟
پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے سپریم کورٹ کی پانچ سوالات پر رائے طلب کی تھی۔

صدارتی ریفرنس کا پہلا سوال: ذولفقار بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق مطابق تھا؟

دوسرا سوال: کیا ذولفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائیکورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہو گا؟اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟

تیسرا سوال : کیا ذولفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا ذولفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانبدار نہیں تھا؟

چوتھا سوال: کیا ذولفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟

پانچواں سوال: کیا ذولفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟سابق صدر آصف علی زرداری نے نجی ٹی وی چینل آج پر عاصمہ شیرازی کو دیے گئے انٹرویو اس ریفرنس سے متعلق بتایا کہ ’میں چیف جسٹس (قاضی فائز عیسیٰ) کو مبارکباد دیتا ہوں، ہم آپ کی جمہوری سوچ کی تعریف کرتے ہیں اور ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔‘

سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس پر سماعت آج ہو گی
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سزائے موت کیس پر صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کا نو رکنی لارجر بینچ آج دن ساڑھے گیارہ بجے سماعت کرے گا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری عدالت میں پیش ہوں گے۔

اس ریفرنس پر سماعت کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں نو رکنی بینچ تشکیل دیا گیا ہے۔

سابق وزیر اعظم کے مبینہ عدالتی قتلکا صدارتی ریفرنس گذشتہ 12 سال سے سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے اپریل 2011 میں صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا۔

صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت دو جنوری 2012 اور آخری سماعت 12 نومبر 2012 کو ہوئی تھی۔

صدارتی ریفرنس پر پہلی پانچ سماعتیں سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کی تھیں۔

صدارتی ریفرنس پر آخری سماعت 12 نومبر 2012 کو 9 رکنی لارجر بینچ نے کی تھی۔صدارتی ریفرنس وکیل تبدیلی کی بنیاد پر ملتوی کیا گیا تھا۔

پاکستان پیپلز پارٹیکے سابق رہنما بابر اعوان کے وکالت کے لائسنس کی منسوخی کی وجہ سے عدالت نے وکیل تبدیل کرنے کا حکم دیا تھا۔

اس صدارتی ریفرنس پر آخری سماعت کے بعد پاکستان کے آٹھ چیف جسٹس صاحبان اپنی مدت ملازمت پوری کرکے ریٹائر ہو چکے ہیں لیکن ان میں سے کسی چیف جسٹس نے اس ریفرنس کو سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا۔

چیئرمین پاکستانپیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے متعدد مرتبہ عوامی جلسوں اور پریس کانفرنسز میں اس کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا کی تھی۔

اس کے علاوہ انہوں نے اس صدارتی ریفرنس پر عدالتی سماعت براہ راست دکھانے کی بھی استدعا کی اور اس ضمن میں پیپلز پاراتی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے سپریم کورٹ میں درخواست بھی دائر کر رکھی ہے۔

واضح رہے کہ 5 اکتوبر 2023 کو پریس ایسوسی ایشن کے رپورٹرز سے ملاقات میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریفرنس کو جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

’میں نے آج اپنے والد کا بدلہ لے لیا ہے‘
سابق صدر آصف علی زرداری نے نجی ٹی وی چینل آج پر عاصمہ شیرازی کو دیے گئے انٹرویو اس ریفرنس سے متعلق بتایا کہ ’میں چیف جسٹس (قاضی فائز عیسیٰ) کو مبارکباد دیتا ہوں، ہم آپ کی جمہوری سوچ کی تعریف کرتے ہیں اور ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔‘

سابق صدر کے مطابق یہ ریفرنس پہلے، دوسرے اور تیسرے چیف جسٹس نے نہیں سنا اور اب چوتھے چیف جسٹس نے اس ریفرنس پر سماعت کا فیصلہ کیا ہے۔

ریفرنس دائر ہونے کے 12 برس کے عرصے سے متعلق سوال پر ان کا جواب تھا کہ ’جمہوریت بڑا کھٹن اور صبر آزما کام ہے۔‘

آصف زاردری نے کہا کہ ’بے نظیر بھٹو نے پہلی بار حلف لینے کے بعد اترتے ہوئے مجھے کہا تھا کہ میں نے اپنے والد صاحب کا بدلہ لے لیا ہے، جمہوریت کے ذریعے اور جمہوریت بہترین انتقام ہے۔‘

ان کے مطابق ’یہ ریفرنس (سابق صدر) فاروق لغاری بھی دائر کر سکتے تھے مگر انھیں یہ توفیق نہیں ہوئی اور پھر میں نے یہ ریفرنس دائر کیا۔‘

بھٹو کو پھانسی دینے والے کرداروں سے متعلق سوال پر آصف زرداری نے کہا کہ (سابق فوجی صدر) ضیاالحق سمیت سب اس دنیا میں نہیں رہے۔ علامتی سزا سے متعلق پوچھے گئے سوال پر انھوں نے جواب دیا کہ ’میں ججز کی قلم اور زبان نہیں بن سکتا، وہ جو فیصلہ کریں قبول ہو گا۔‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں